روز نئے کرتب دکھلائے جادوگر

روز نئے کرتب دکھلائے جادوگر
دنیا کا مطلب سمجھائے جادوگر


تم کہتے ہو ہر دم ہنستا رہتا ہے
آنسو پر پیوند لگائے جادوگر


دیکھ کے اس کو یوں سارے تالی پیٹے
اونچائی سے جب گر جائے جادوگر


باقی تو پانی سے آگ بجھاتے ہیں
اور پانی میں آگ لگائے جادوگر


سارے درزی کپڑے کاٹا کرتے ہیں
انساں کے ٹکڑے کر جائے جادوگر


لوگ یہاں چنگاری سے ڈر جاتے ہیں
اپنے منہ سے آگ اڑائے جادوگر


لکھنا تو الفاظ کی ہیرا پھیری ہے
خود کو اب عرفانؔ بتائے جادوگر