ریگزاروں میں پل رہا ہوں میں

ریگزاروں میں پل رہا ہوں میں
چاندی سونا اگل رہا ہوں میں


شکل و صورت بدل رہا ہوں میں
آئنے میں مچل رہا ہوں میں


فاصلہ اب بہت ضروری ہے
تیری قربت سے جل رہا ہوں میں


جب سے حصے میں شہرتیں آئیں
چند آنکھوں میں کھل رہا ہوں میں


نقش پا ہی عدو نہ بن جائے
اپنی راہیں بدل رہا ہوں میں


قبل اس کے جوان ہو دریا
سارا صحرا نگل رہا ہوں میں


ہجرتوں میں بڑی تمازت ہے
لمحہ لمحہ پگھل رہا ہوں میں