چلا تھا آسماں چھونے اڑان سے بھی گیا

چلا تھا آسماں چھونے اڑان سے بھی گیا
پرائے میں نہ رہا خاندان سے بھی گیا


یقین ٹوٹا تو اپنوں پہ اعتبار کیا
مرے خیال سے وہم و گمان سے بھی گیا


پرائے لوگوں سے اس درجہ انسیت رکھی
کہ اپنے لوگوں کے یکسر دھیان سے بھی گیا


ضرورتوں کو تعلق پہ فوقیت کیا دی
خودی بھی جاتی رہی مہربان سے بھی گیا


گزرتے لمحوں کو مٹھی میں قید کر نہ سکا
گنوایا وقت بھی اپنے پلان سے بھی گیا


اسے یہ زعم کے سر ہوں گے معرکے سارے
مگر یہ ہو نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا