ادھورے خواب کی تعبیر ہو جائے

ادھورے خواب کی تعبیر ہو جائے
محل پانی پہ اک تعمیر ہو جائے


زمیں تا آسماں بکھرا ہوا ہوں
سمٹنے کی کوئی تدبیر ہو جائے


جسے چاہوں اسے اپنا بنا لوں
زباں میں وہ مری تاثیر ہو جائے


رعونت سر اٹھائی ناچتی ہے
کسی کی جانے کب تحقیر ہو جائے


فلک سے جب کوئی ٹوٹے ستارہ
زمیں کو فکر دامن گیر ہو جائے


وہاں تک لے چلو مجھ کو ہواؤ
مری خواہش جہاں تسخیر ہو جائے