روشنیوں سے بھر دیا ہے مجھے

روشنیوں سے بھر دیا ہے مجھے
اس نے خود جیسا کر دیا ہے مجھے


آنکھ جھپکوں تو کانپتا ہے دل
نیند نے ایسا ڈر دیا ہے مجھے


مجھ سے امید ہے بھلائی کی
اور خود تو نے شر دیا ہے مجھے


آپ سے پہلے یوں نہیں تھا میں
آپ نے جیسا کر دیا ہے مجھے


یوں کیا ہم کو لازم و ملزوم
سنگ اس کو تو سر دیا ہے مجھے


کیا توازن اڑان میں رکھوں
اس نے بس ایک پر دیا ہے مجھے


ان درندوں میں رکھنے کا مطلب
اس نے آزاد کر دیا ہے مجھے


کیا عجب دی ہے بے رخی کی سزا
اس نے چوکھٹ پہ دھر دیا ہے مجھے