اسی لیے تو اجالوں سے دوستی ہوئی ہے

اسی لیے تو اجالوں سے دوستی ہوئی ہے
کہ تیرے آنکھ جھپکنے سے روشنی ہوئی ہے


ضرور عشق کی حدت سے یہ نمی ہوئی ہے
کہ گھاس آپ کے چلنے سے ریشمی ہوئی ہے


ہمیں یقین ہے اس باغ کے نہیں ہو تم
کہ ہم نے چڑیوں کی تعداد تک گنی ہوئی ہے


اسی کا حق ہے کہ دیوان اس کے نام کروں
وہ جس کی یاد میں دن رات شاعری ہوئی ہے


میں ایک نقطے پہ مرکوز ہو گیا ہوں تبھی
زمین گھوم رہی تھی پر اب تھمی ہوئی ہے


وہ ہم مزاج تھے لیکن کبھی قریب نہ تھے
قریب ہو گئے ہیں جب سے دشمنی ہوئی ہے


یہ لوگ یوں ہی غذاؤں کو دوش دیتے ہیں
ہمارے خوں میں محبت کی بس کمی ہوئی ہے


ذرا سی دیر میں دامن کا حال دیکھیں گے
ابھی ببول کے کانٹوں سے دوستی ہوئی ہے


تمہاری آنکھ کا کاجل بکھر گیا ہے کہیں
تبھی تو شام اچانک سے سرمئی ہوئی ہے


سمجھ چکا ہوں میں لہجے کی سلوٹیں عدنانؔ
سو جانتا ہوں ملاقات آخری ہوئی ہے