کمال تازہ بہانے سے یہ غزل ہوئی ہے
کمال تازہ بہانے سے یہ غزل ہوئی ہے
کسی کی یاد کے آنے سے یہ غزل ہوئی ہے
نہیں ہے کچھ بھی مگر معجزہ ہے الہامی
کہ میرے جیسے دوانے سے یہ غزل ہوئی ہے
گلوں کو آب لگانے کا ہے ثمر خوشبو
سخن کا باغ سجانے سے یہ غزل ہوئی ہے
تمہارے چھوڑ کے جانے سے وہ غزل ہوئی تھی
تمہارے لوٹ کے آنے سے یہ غزل ہوئی ہے
انیسؔ و غالبؔ و سوداؔ کے ہے طفیل سبھی
انہی کو سننے سنانے سے یہ غزل ہوئی ہے
لیا ہے ہم نے تری چشم سے تغزل اور
اسی پہ مصرعہ لگانے سے یہ غزل ہوئی ہے