کسی صحیفے کے جیسا ہوا ہے نام ترا

کسی صحیفے کے جیسا ہوا ہے نام ترا
خدا نے ہم پہ اتارا ہوا ہے نام ترا


وہی زمانہ جو گزرا بطور عہد وفا
اسی زمانے سے بدلا ہوا ہے نام ترا


یہاں نہیں ہے ضرورت گلاب رکھنے کی
مری کتاب میں لکھا ہوا ہے نام ترا


ہمارے دل کی طرح وہ بھی کھل اٹھی ہوگی
وہ شاخ جس پہ تراشا ہوا ہے نام ترا


بدلتے دیکھتا ہوں ہاتھ کی لکیروں کو
کہ اس پہ خون سے لکھا ہوا ہے نام ترا


اسی لیے تو مہکتے ہیں خواب و خواہش بھی
کہ دل کے دشت پہ برسا ہوا ہے نام ترا


تمام شہر کی نظریں اسی پہ ہیں عدنانؔ
کہ جس کے نام پہ رکھا ہوا ہے نام ترا