گر تری جنبش ابرو کا اشارہ ہو جائے

گر تری جنبش ابرو کا اشارہ ہو جائے
ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا ہو جائے


ہم سے بد بخت کے حق میں کوئی تارا ہو جائے
عین ممکن ہے کسی دن وہ ہمارا ہو جائے


خواب میں آ کہ ہو نیندوں پہ بھروسہ بھی کوئی
یار ملنے کا بس اک ایسے ہی چارہ ہو جائے


اس سے پہلے کہ تجھے دل سے بھلا دیں ہم بھی
اور پھر تیری جگہ کوئی ہمارا ہو جائے


وہ جو حاصل نہ ہوا خیر کوئی بات نہیں
وہ کسی اور کا ہو کیسے گوارا ہو جائے


زندگی نیند سے اٹھ جائے اگر جان جہاں
اس کے ہونٹوں پہ بس اک بوسہ تمہارا ہو جائے


ہونے آئے تو بھلا کیا نہیں ہوتا ہے یہاں
چاند بھی عشق کرے اور ستارہ ہو جائے


ڈھونڈنے والے پریشان بہت ہیں عدنانؔ
کیا یہ ممکن ہے کوئی ویسا خدارا ہو جائے