رنگوں کا تقدس

مجھے سب خبر ہے
اسے بھی پتا ہے کہ
اب وسعتوں میں نہیں اور کچھ بھی
فقط وسعتیں ہیں
ہمیں رنگوں کا اندرجالی تقدس
اٹھائے اٹھائے
سفر کی صعوبت یوں ہی جھیلنی ہے
خبر ہے کہ
خوشبو کا آکار کچھ بھی نہیں ہے
پتہ ہے کہ
لمس اک قبا ڈھونڈھتا ہے
نفس نیزوں ہی پر
ہواؤں کے سر کو
اٹھائے اٹھائے
یوں ہی گھومتا ہے
جب تک
کمیں گاہ سے وہ نہ نکلیں
خوشبو کے خوابوں کی فطرت نہ بدلے
رنگوں کا یہ اندرجالی
تقدس نہ ٹوٹے
سب کچھ پتا ہے
مگر مطمئن ہیں