سبھی ویسے کا ویسا ہے
سبھی کچھ ویسے کا ویسا ہے
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
دور سے
آواز دیتیں
محرابیں
دھوجائیں
نکیلے اور گول گنبد
غٹرغوں کرتے کبوتر
ٹوٹتے بکھرتے
قلعے کی
منہدم برجیوں پہ
اگی جلی گھاس
برساتی نالے کی ناف سے نکلتی
پگڈنڈی
پار کوٹھار
گاڈولیا لوہار
گھنا
چھتنار
پیڑ پیپل کا
اونگھتی السائی سڑک
مکان کی پہلی منزل کی زنگ خوردہ سلاخ سے
منقسم خواب گوں
کھڑکی
ٹوٹتی گرتی شام کی روشنی میں
سیال شراروں کی
ٹیڑھی میڑھی لکیروں کو
دیکھتی
چپ چاپ
سورج کی پہلی کرن
گڈمڈ لکیروں کو سکھاتی