سمت کا صحرا
کیسا لگتا ہے اب
جب ہو گئے ہیں
ایک جیسے
چاروں اور چھور
ساربانوں کے کہیں
بیٹھتے اٹھتے مڑتے ٹوٹتے
سر ہیں
نہ اونٹوں کے گلے کی گھنٹیوں کی
دوریوں کے دریاؤں میں
دھیرے دھیرے
ڈوبتی
گونجیں
نہ کہیں
خچروں پہ بیٹھیں
خواب بنتیں
خانہ بدوش دوشیزائیں
جن کے برہے سننے
ٹھہر جاتا تھا
ساون
تمہارے صحن میں بھی
شوق کی تکمیل کرنے
شتر پر
شب ہی کی شب میں
دریائی صحرائی سفر کر لوٹنے والے
دلاور
بھی نہیں
کچھ بھی نہیں
پسرتی سمتوں میں
گھورتی تنہائیوں کو
زرد آنکھیں تمہاری
پل پل
پھیلتی جاتی
ایک پیلی سائیں سائیں