تذبذب
سچ بتاؤ
جو کتابوں میں لکھا ہے
کیا وہ سب تم نے کہا ہے
جب اذیت جسم سے رسنے لگے گی
جب دعا کو اٹھنے والے ہاتھ
شل ہونے لگیں گے اور
شل ہوتے ہوئے ہاتھوں کو
کاٹ ڈالا جائے گا شانوں سے میرے
جب ثنا کی صوت
پھونک ڈالے گی لبوں کو
آرزو میں آبلوں سی
آنکھیں
نیزے پھوڑ دیں گے اور
گلا بنجر زمیں سا
کچھ نہ دے گا
دست صدا میں
کاٹ ڈالے گا کوئی سر دھڑ سے میرا
تم
سمٹ کر رنگ و بو میں
خاک و خوں میں
صور پھونکوگے
کن کہو گے
کیا تمہارا ہی کہا ہے
جو کتابوں میں لکھا ہے
سچ بتاؤ