رہ حیات کی کھوئی ہوئی صدا بن جائے

رہ حیات کی کھوئی ہوئی صدا بن جائے
ہجوم غم میں کوئی ہو جو آسرا بن جائے


یہ کاروان محبت ہے اے خرد مندو
سمندروں سے بھی گزرے تو راستہ بن جائے


زباں پہ ذکر اسی کا ہو روز و شب کیوں کر
نہ چاہیئے اسے اتنا کہ وہ خدا بن جائے


الجھ کے رہ سا گیا ہوں ترے خیالوں میں
کہ اک خیال مٹاؤں تو دوسرا بن جائے


پھر اس کے بعد ہنر تیرا معتبر ہوگا
تراش سنگ کچھ ایسے کہ آئنہ بن جائے


حذر کہ اشک نہ چھلکے نگاہ سے انورؔ
رخ ستم نہ کہیں درد آشنا بن جائے