راستہ ہے پر خطر یہ سوچ کر
راستہ ہے پر خطر یہ سوچ کر
صبح سے بیٹھا ہوں میں دہلیز پر
شاخ تنہا پر کبھی تھا آشیاں
آشیاں میں آسمان و بال و پر
بے در و دیوار دنیا عشق کی
کھو گیا سنسار زیر بام و در
ٹوٹتا جاتا ہے میرا حوصلہ
آ رہا ہے میری جانب راہبر
چل کہ تجھ کو تیرے گھر تک چھوڑ دوں
تو اگر رہنے دے مجھ کو میرے گھر
آج تک آئے نہ جو زیر قلم
ڈھونڈ وہ الفاظ جو ہیں در بدر