Om Prabhakar

اوم پربھاکر

  • 1941

اوم پربھاکر کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    جو نہیں ہے اسی کھلے در کو

    جو نہیں ہے اسی کھلے در کو جا رہا ہوں میں چھوڑ کر گھر کو اپنی دہلیز سے میں تا منزل ڈھونڈھتا ہی رہا ہوں رہبر کو کیا کروں جا کے قبر میں لیٹوں کیسے بھولوں میں موت کے ڈر کو تو بھی آتا ہے ساتھ ساتھ کہ جب یاد کرتا ہوں اپنے دلبر کو جا رہی ہے خزاں بغیچے سے چھوڑ کر دامن معطر کو یاد کرتا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شکوہ کوئی گلہ رکھیے

    کوئی شکوہ کوئی گلہ رکھیے کچھ نہ کچھ جاری سلسلہ رکھیے مسئلے زندگی کے اپنی جگہ فصل گل کا بھی کچھ پتا رکھیے چند لمحے چھپا کے لوگوں سے خود کو خود میں بھی مبتلا رکھیے سب کو اپنائیے مگر خود سے خود کا تھوڑا سا فاصلہ رکھیے جسم دے دیجئے زمانے کو یاد سے صرف دل ملا رکھیے

    مزید پڑھیے

    کل سماعت دکھی صدا کو دوں

    کل سماعت دکھی صدا کو دوں جسم دھرتی کو جاں ہوا کو دوں اپنی ساری متاع عقل و خرد روٹھنے کی تری ادا کو دوں کل عناصر الگ الگ کر کے کچھ تجھے اور کچھ خدا کو دوں اک دھنک ہے مری نگاہوں میں تیری زلفوں کو یا گھٹا کو دوں دیکھوں کتنا لہو ٹپکتا ہے اب کے خنجر کف وفا کو دوں

    مزید پڑھیے

    میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا

    میں گہری نیند میں تھا جب کہ یہ بھیجی گئی دنیا اب استعمال کرنی ہے مجھے دے دی گئی دنیا بہ وقت صبح لگتا تھا کہ کچھ کچھ دسترس میں ہے جو آئی شام ہاتھوں سے مرے لے لی گئی دنیا پڑی ہے جا بجا ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں سی کسی انجان کھڑکی سے کبھی پھینکی گئی دنیا مرے در پر نئے دن کو مہکتے پھول ...

    مزید پڑھیے

    سر پہ دست ہوا ہے صدیوں سے

    سر پہ دست ہوا ہے صدیوں سے غیب کا آسرا ہے صدیوں سے صرف دو پاؤں اور وسیع زمیں یہ بھی اک معجزہ ہے صدیوں سے ہے کم و بیش نیلگوں ہر شے درد کا سلسلہ ہے صدیوں سے جیسے پانی ہوا ہوا پانی مجھ میں تو مبتلا ہے صدیوں سے سننے والا ہو کوئی تو سن لے عشق نغمہ سرا ہے صدیوں سے

    مزید پڑھیے

تمام