راہ میں حائل نہ ہو جاتے اگر دیر و حرم

راہ میں حائل نہ ہو جاتے اگر دیر و حرم
اور شاید دور تک ملتے ترے نقش قدم


عشق میں فرق مراتب کو کبھی بھولے نہ ہم
اپنی خاطر آہ و زاری ان کی خاطر ضبط غم


جب بھی ہاتھ آئی بقدر ظرف ہی ثابت ہوئی
پی کے دیکھی ہے زیادہ سے زیادہ کم سے کم


کر لیا ہے میں نے ہر اک حادثے کا تجزیہ
مسکرانے سے مسرت بن گیا رونے سے غم


آزمائش پر اتر آیا ہے دور انقلاب
دھوپ بن کر رہ گیا ہے سایۂ دیر و حرم


مدتوں پروانے کی مانند جل چکنے کے بعد
شمع بن کر جل رہے ہیں اب تری محفل میں ہم