قومی زبان

اپنے روز و شب کا عالم کربلا سے کم نہیں

اپنے روز و شب کا عالم کربلا سے کم نہیں عرصۂ ماتم ہے لیکن فرصت ماتم نہیں صرف جذب شوق میں پوریں لہو کرتے رہے ہم وہاں الجھے جہاں پر کوئی پیچ و خم نہیں کوئی روگ ایسا نہیں جو قریۂ جاں میں نہ ہو کوئی سوگ ایسا نہیں جس میں کہ شامل ہم نہیں کوئی لے ایسی نہیں جو صرف ہنگامہ نہیں ایک بھی سر ...

مزید پڑھیے

دیر ہو جائے گی پھر کس کو سنائی دو گے

دیر ہو جائے گی پھر کس کو سنائی دو گے دشت خود بول اٹھے گا تو دہائی دو گے اب تو اس پردۂ افلاک سے باہر آ جاؤ ہم بھی ہو جائیں گے منکر تو دکھائی دو گے؟ اب اسیران قفس جیسے قفس میں بھی نہیں اب کہاں ہوگی رہائی جو رہائی دو گے شمعیں روشن ہیں تو کیا عالم بے چہرگی میں تم کوئی بھی ہو مگر کس کو ...

مزید پڑھیے

خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے

خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے گھر کو بننے نہیں دینا کبھی بازار مجھے میں اسے دست عدو میں نہیں جانے دوں گا سر کی قیمت پہ بھی مہنگی نہیں دستار مجھے میں جو چلتا ہوں تو آنکھیں بھی کھلی رکھتا ہوں اتنا سادہ بھی نہ سمجھیں مرے سالار مجھے پھر توازن میں رہے گی مری ناؤ کب تک جب ...

مزید پڑھیے

دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے

دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے غم سی آگ کو ہم نے بادل کر رکھا ہے جس نے راہ کے پیڑوں کی سب شاخیں کاٹیں سب نے اسی کے سر پر آنچل کر رکھا ہے کوئی پہاڑ ہے اپنی ذات کے اندر جس نے خود ہم سے بھی ہم کو اوجھل کر رکھا ہے پتھر لے کر سارا شہر ہے اس کے پیچھے اک پاگل نے سب کو پاگل کر رکھا ...

مزید پڑھیے

زندگی کو ہم وفا تک وہ جفا تک لے گئے

زندگی کو ہم وفا تک وہ جفا تک لے گئے اپنے اپنے فن کو دونوں انتہا تک لے گئے لغزشوں میں کیا معافی کی توقع ہو کہ جب بے گناہی کو بھی میری وہ سزا تک لے گئے ساحلوں پر اور بھی خوش ذوق تھے لیکن مجھے پانیوں کے رنگ ہر موج بلا تک لے گئے جی رہی ہے اب تو بستی ایک سناٹے کے ساتھ جبر کے موسم ...

مزید پڑھیے

دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی

دشمن جاں بھی وہی حاصل ارماں بھی وہی غم کا ساماں بھی وہی درد کا درماں بھی وہی لطف گل گشت مگر اب وہ کہاں تیرے بغیر رنگ گلشن ہے وہی جوش بہاراں بھی وہی بعد دیوانے کے اگلی سی وہ رونق نہ رہی بزم خوباں ہے وہی شہر نگاراں بھی وہی آج تک آتش غم جان جہاں کم نہ ہوئی زخم ہیں اب بھی وہی سوزش ...

مزید پڑھیے

ایک نظم

آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہی ہیں گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر کند چھری کی مانند اٹکے کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پروا لب پر اتریں معانی کے ...

مزید پڑھیے

پیاس

جی میں ہے کہ جل تھل برسوں پر یہ آنسو کس کس نام سے روؤں گی اک آنسو پر نام ہے اس کا جس کے ہاتھ سوالی ہیں اک آنسو ہے اس کے نام جو سردی میں کہر زدہ ان سڑکوں پر بھوکوں مرتا ہے یہ لمبی کالی کاروں میں کون سی دنیا بیٹھتی ہے کیا نام ہے ان کا کون ہیں وہ کیا بیچتے ہیں اور سرخ گلابی ہونٹوں پر یہ ...

مزید پڑھیے

اپنی پہچان

دانشوری ساری عقلوں کا اشتہار ایک طرف اور جذبوں کا بازار ایک طرف لوگوں کو پہچاننے ان کو جاننے کے لئے کیا اب اکادمی قائم ہوگی ہم سب کو اچھا کہنے والے لوگ ہماری اپنی پہچان جانے کس کے حوالے سے ہوگی ہماری زرد چہروں سے اور حیران آنکھوں سے کہ تماشا ہماری آنکھوں کے سامنے صدمے کی طرح ہو ...

مزید پڑھیے

تیرے نینوں کی خیر

میں جب پلکوں کے دروازوں پہ اتروں تو روشنیوں سے جھولی بھر لوں یہ سارے انوکھے دکھ بھرے دن میرے حافظے کی تختی سے مٹ مٹ جائیں گے اک پاگل امنگ بھرا دن ہوگا جب تو اندھیروں کی بستی سے نور کے رستے پر چلتا ہوا شہر میں اپنی آمد کا اعلان کرے گا تب سارے پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر آ کر تمہیں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 906 سے 6203