قومی زبان

شہر آشوب

اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو خود ہی سوچو کہ سزا جیسی یہ تنہائی ہے جس جگہ پھول مہکتے تھے وفاؤں کے کبھی ان فضاؤں میں اٹل رات کی گہرائی ہے ان اندھیروں سے پرے آج بھی اس دنیا میں لوگ خوش حال محبت سے رہا کرتے ہیں آج بھی شام ڈھلے سکھ کی حسیں وادی میں لوگ پیڑوں کے تلے روز ملا کرتے ...

مزید پڑھیے

کانچ کی گڑیا

کانچ نازک ہیں خواب نازک ہیں تم قدم سوچ کر ادھر رکھنا کھیلنے کا تجھے ہے شوق مگر ان چٹانوں پہ بھی نظر رکھنا تیرے دل میں ہے آرزو کی کرن تیری آنکھوں میں خواب ہیں کل کے تیرے ہاتھوں میں رنگ تتلی ہیں تیرے چہرے پہ عزم ہیں دہکے میرے آنگن کی کانچ کی گڑیا اپنی قسمت کا امتحان نہ لے میں تجھے ...

مزید پڑھیے

لفظ تو بانجھ ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں زندگی بار چکے ہوں تو قہر کیا جانیں اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے ہیں لفظ زیست کا عنوان ہیں سرمایہ ہیں پھر بھی جذبات کے عکاس نہیں ہو ...

مزید پڑھیے

صدیوں کا تغافل

مجھ کو حیرت ہے تمہیں یاد نہ آئی میری دور جاتے ہوئے اک بار نہ مڑ کر دیکھا کتنی صدیوں کے تغافل نے دیا تھا اک پل کیسے ممکن ہے گزر جائے وہ آہٹ کے بنا دل نے اک بار بھی کیوں دی نہ دہائی میری بار تم کو نہ لگا مجھ سے جدا ہو جانا میں یہ سمجھی تھی کہ میں رہ نہ سکوں گی تجھ بن تجھ سے دوری کا تصور ...

مزید پڑھیے

ہار جیت

زندگی کے منظر میں ہار جیت کا منظر کس قدر اداسی کا اور بے نوائی کا ایک منتظر منظر ڈوب کر ارادوں میں ٹوٹ کر سرابوں میں دشت بے اماں منظر ہار جیت کا منظر آج اپنے شاعر سے پوچھ لیں تو اچھا ہے کیا گنوا کے پایا ہے اور کیا جو کھویا ہے اعتبار کا منظر ہار جیت کا منظر آج تم سے کھیلی ہے زندگی ...

مزید پڑھیے

شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے

شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے ساعتوں میں سمندر پروتی رہے موسموں کے حوالے ترے نام سے دھوپ چھاؤں مرے دل میں ہوتی رہے جی نہ چاہا تری محفلوں سے اٹھوں بے بسی خالی نظروں سے تکتی رہے تم نے مانگا ہے احساس اس ڈھنگ سے پتھروں کی خموشی پگھلتی رہے یوں گزرتے رہیں یاد کے قافلے میری گلیوں ...

مزید پڑھیے

نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے

نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے ملے گا پھر کوئی ساتھی کہاں سے جفائیں ہوں کہ دکھ رکھ لو خوشی سے کہ بہتر ہیں یہ عمر رائیگاں سے بہاروں سے نہ اتنا دل لگاؤ کہ وحشت ہو چلے تم کو خزاں سے وہ منظر ریت کے ساحل میں گم ہیں یہی امید تھی آب رواں سے یہ آنکھیں غم سے بوجھل ہو چلی ہیں اتر آئے مسیحا ...

مزید پڑھیے

حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم

حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم آسماں سے اتر آئے ہیں ستاروں کے ہجوم غرق ہو جائیں سمندر میں کہیں سوچا تھا ہائے قسمت ہمیں ملتے ہیں کناروں کے ہجوم جان کو اپنی چھڑا لائیں ہیں ویرانوں میں شہر میں جان کو آتے ہیں سہاروں کے ہجوم کتنے پر کیف ہیں رنگین خزاں کے موسم جی جلاتے ہیں ...

مزید پڑھیے

میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں

میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں رنگ بکھرے ہیں چار سو میرے ریگ زاروں میں کچھ سراب تو ہیں تیری چاہت کی آرزو نہ سہی ہم ترے سایۂ عتاب تو ہیں لفظ ڈھلنے لگے ہیں معنی میں زندگی سے ملے جواب تو ہیں روشنی سی رہی درختوں پر جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں رات کے ...

مزید پڑھیے

بے سہارا نہ چھوڑ جاؤ ہمیں

بے سہارا نہ چھوڑ جاؤ ہمیں زندگی بھر نہ آزماؤ ہمیں ہم ہی کیوں ڈھونڈتے رہیں تم کو دشت امکاں سے ڈھونڈ لاؤ ہمیں وقت چپ چاپ بہہ نہ جائے کہیں وقت کی لے پہ گنگناؤ ہمیں شام سے دل میں اک اداسی ہے شام وعدہ نہ یاد آؤ ہمیں پھر بھلا کون یاد رکھتا ہے فی‌ زمانہ گلے لگاؤ ہمیں

مزید پڑھیے
صفحہ 885 سے 6203