صدیوں کا تغافل

مجھ کو حیرت ہے تمہیں یاد نہ آئی میری
دور جاتے ہوئے اک بار نہ مڑ کر دیکھا
کتنی صدیوں کے تغافل نے دیا تھا اک پل
کیسے ممکن ہے گزر جائے وہ آہٹ کے بنا
دل نے اک بار بھی کیوں دی نہ دہائی میری


بار تم کو نہ لگا مجھ سے جدا ہو جانا
میں یہ سمجھی تھی کہ میں رہ نہ سکوں گی تجھ بن
تجھ سے دوری کا تصور تھا بہت انجانا
پھر بھی میں خوش ہوں کہ اس کار گہ دنیا میں
تم سے ملنے کے لئے وقت نے رستہ تو دیا
اس قدر مجھ پہ مہربان یہ قدرت تو ہوئی
ساتھ پل بھر کا سہی ساتھ تو پایا تیرا