قومی زبان

خود رسوا

میرے دل میں اگتی پیار کی فصل کو جب لوگوں کی نفرت کے فضلے کی کھاد ملی تو سٹے چمک کر سونا ہو گئے پھر وہی فصل کاٹنے کا وقت آیا تو میرے خلوص کی درانتی کند ہو گئی اور دل شکم کے آنسوؤں سے بھر آیا درانتی خوب چلائی گئی لیکن فصل نہ کٹی میرے ہاتھوں پر کیچڑ لگا ہوا تھا سٹے نیلے ہو چکے ...

مزید پڑھیے

کلّن

۱ کلن کی خود کلامی میں بیاہ رچاؤں گی کچھ روپے ہو جائیں میں کچرا اچھی طرح صاف کر سکتی ہوں برتن مانج لیتی ہوں جھاڑن بھی چلا لیتی ہوں مجھے کھانا بہت اچھا پکانا آتا ہے میں کوٹھیوں میں کام کروں گی کچھ روپے ہو جائیں تو اپنا بیاہ رچاؤں گی ۲ کلن پوچھا لگاتی ہے تو پنڈلیاں ننگی ہو جاتی ...

مزید پڑھیے

دروازوں کی خود کشی

دروازے کیا ہوتے ہیں کیا دروازے باہر جانے کے لیے ہیں یا صرف اندر آنے کے لیے دروازوں کا درست مصرف سمجھنے سے فلسفی قاصر رہے ہم تمام عمر ان کی حقیقت سے نا آشنا رہے ہمیں معلوم نہ ہو سکا اور دروازے ہمارے اندر سے خارج ہو گئے یا شاید اپنے ہی اندر داخل ہو گئے داخل اور خارج ہونے کی بحث ...

مزید پڑھیے

میرا کیا ہے تم سوچو نا

میرا کیا ہے میں کیوں سوچوں آگے رستہ بند پڑا ہے یا کوئی منزل بھی ہے چاروں طرف پر شور سمندر یا کوئی ساحل بھی ہے چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور درد کا بھی احساس نہیں ہو میں کیوں سوچوں کوئی جو مجھ سے غافل بھی ہے میرا کیا ہے بچپن کی پہلی ٹھوکر سے جس نے سنبھلنا سیکھ لیا ہو نازک ...

مزید پڑھیے

کہیں کچھ جل رہا ہے

جب پرندے لہولہان ہو کر آسمان سے گر رہے تھے میں پانی کے قطرے سے موتی چن رہی تھی جب کبوتروں کے غول غائب تھے آسمان پر شمشیریں چمک رہی تھیں میں بادلوں کو بوسہ دے رہی تھی آسمانی بخشش نے میرے کورے کینواس پر لکھ دی ایک نظم وہاں ساحلوں پر اڑتے ہوئے پرندے تھے بارش تھی اور کبوتروں کے ...

مزید پڑھیے

محبت جسم ہے مانا

کوئی آواز تھی جس کے تلاطم میں یوں بہہ جانا کہاں منظور مجھ کو تھا کہیں وحشت کے ان دیکھے بھنور کے سات پردے تھے جو زندانوں میں کھلتے تھے ہر ایک زنداں میں میں تھی اور مری سرشار طبیعت کے ہر ایک لمحے کی سانسوں میں کہیں میری انا تھی میری طاقت تھی محبت تھی میں کب ایسی کسی آواز کی زد ...

مزید پڑھیے

فن قاتل ہے

فن کے بت کدے میں داخل ہو کر اپنے رنگوں میں ہاتھ گھولنا اپنی شاعری کی بنسی بجانا اپنے افسانوں کے ہر ایک صنم سے مخاطب ہونا اور سروں سے ہم کلام ہونا فن کار کی زندگی کا خلاصہ ہے فن کار فن کھاتا ہے فن اوڑھتا ہے فن دیکھتا ہے فن سنتا ہے لیکن اس کی مصوری اس کی شاعری اس کی موسیقی اور اس کی ...

مزید پڑھیے

آئی ایم بلیو

میں تنہا تھا کل بھی اور آج بھی میں جانتا تھا کہ میں نیلا ہوں لیکن تمہاری آواز پر میں باہر نکل آیا گورے کالے اور خاکستریوں کے درمیان اور اب میں زخمی ہوں کاش تم مجھ سے نفرت کرتیں تو میں واپس تنہائی کے تنے میں چھپ جاتا جہاں میرے آنسو شاخوں پر اگتے اور میں فن کے میٹھے پھل دیتا تم نے ...

مزید پڑھیے

یہ جو کچھ آج ہے کل تو نہیں ہے

یہ جو کچھ آج ہے کل تو نہیں ہے یہ شام غم مسلسل تو نہیں ہے میں اکثر راستوں پر سوچتا ہوں یہ بستی کوئی جنگل تو نہیں ہے یقیناً تم میں کوئی بات ہوگی یہ دنیا یوں ہی پاگل تو نہیں ہے میں لمحہ لمحہ مرتا جا رہا ہوں مرا گھر میرا مقتل تو نہیں ہے کسی پر چھا گیا برسا کسی پر وہ اک آوارہ بادل تو ...

مزید پڑھیے

دل کو کوئی آزار تو ہوتا

دل کو کوئی آزار تو ہوتا اپنا کوئی غم خوار تو ہوتا صحرا بھی کر لیتے گوارا ذکر در و دیوار تو ہوتا سایۂ زلف یار نہیں تھا سایۂ یاد یار تو ہوتا آنکھوں سے کچھ خون ہی بہتا وہ دامن گلکار تو ہوتا لاکھ طلوع مہر تھے لیکن کوئی شب-بیدار تو ہوتا

مزید پڑھیے
صفحہ 603 سے 6203