کہیں کچھ جل رہا ہے

جب پرندے لہولہان ہو کر آسمان سے گر رہے تھے
میں پانی کے قطرے سے موتی چن رہی تھی
جب کبوتروں کے غول غائب تھے
آسمان پر شمشیریں چمک رہی تھیں
میں بادلوں کو بوسہ دے رہی تھی
آسمانی بخشش نے میرے کورے کینواس پر
لکھ دی ایک نظم
وہاں ساحلوں پر اڑتے ہوئے پرندے تھے
بارش تھی
اور کبوتروں کے غول
آسمان کا رنگ نیلا تھا
پریاں کوہ قاف سے دعائیں لے کر لوٹی تھیں


موت کی سرحدوں سے الگ
جب بچوں کی لوریوں میں
خوف کی موسیقی شامل ہو رہی تھی
میں ایک اچھے دن کی نظم
پریوں کی کہانی کے ساتھ
ان بچوں کو سنانا چاہتی تھی