پر اب یہ مشکل ہے
میں داستان وفا کے اس موڑ پر
عجب کشمکش میں ہوں اب
کہ ذہن و دل کی لڑائیاں تو
رہ وفا کے ہر اک مسافر کی زندگی کا ہیں جزو لازم
ہے اب یہ مشکل کہ دل میں اور مجھ میں ٹھن گئی ہے
مرا یہ اصرار ہے
ملن کی رتوں کی پہلی سحر تراشوں
پہ دل بضد ہے
کہ شام غم کے دیے کی لو کو لہو سے سپیچوں
میں دل کی سچائی پر یقیں رکھنے والا انسان
کشمکش میں ہوں اب
کہ اپنی رگوں کے امرت سے
وصل رت کو جلا دوں
یا پھر خط شکستہ میں
اپنی آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے
رت جگوں کی بیاض پر تیرا نام لکھوں
سحر تراشوں کہ شام لکھوں