چھلنی چھلنی سائباں
تمازت سے محروم افکار کے زرد سورج اگل کر
سبھی اپنے اسلاف کی کھوپڑیوں کی مالائیں پہنے
اجنمے ہوئے اپنے بچوں کی شکلوں کو
بارود کے ڈھیر پر رکھ رہے ہیں
وہ بچے جنہیں جنم لینا پڑا تھا
وہ اپنے گھروں میں اندھیرے سجا کر
چراغوں کو اپنی ہی قبروں پہ رکھنے
چلے آ رہے ہیں
یہاں ماں کے سینے سے اکھڑی ہوئی
چھاتیاں
ملک پاؤڈر سے بھرنے
نئی نسل بازار میں آ چکی ہے
کتابوں کے انبار سے اگنے والی
یہ تہذیب
اپنے خداؤں کو آواز دینے لگی ہے
مگر امن کی ساری جیبیں ہیں خالی
وہ سارے خدا غیر محفوظ ہیں