قومی زبان

آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں

آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں اک نام لیتا رہتا ہے ہر وقت کان میں مجھ کو شگاف کرنا پڑا آسمان میں کوئی خلا جب ہونے لگا درمیان میں دیوار میں درار تو آنی تھی ایک دن سر کب تلک پٹختی خموشی مکان میں وہ کرب ابتسام نہ تفہیم کر سکا احساس کی کمی تھی مرے ترجمان میں کچھ اس سبب بھی درد کا ...

مزید پڑھیے

دریا میں طغیانی ہے

دریا میں طغیانی ہے بستی بستی پانی ہے آہ کہ جنگل ہیں آباد شہروں میں ویرانی ہے مشکل سے اب کیا ڈرنا اس میں ہی آسانی ہے دنیا کی کیا چاہ کریں دنیا آنی جانی ہے اس کو تو پچھتانا ہے جس نے دل کی مانی ہے میں بھی من کا راجا ہوں وہ بھی دل کی رانی ہے اے دل اس کو بھول بھی جا یہ کیسی من مانی ...

مزید پڑھیے

کوئی شکوہ تھا شکایت تھی گلا تھا کیا تھا

کوئی شکوہ تھا شکایت تھی گلا تھا کیا تھا اس نے جو کان میں چپکے سے کہا تھا کیا تھا بھول کچھ مجھ سے ہوئی تھی کہ خطا اس کی تھی جو سبب ترک تعلق کا بنا تھا کیا تھا سوچتا ہوں وہ تھا دیوانہ کہ تھا سودائی پیار میں تو نے جو اک نام دیا تھا کیا تھا بارہا فون پہ اس نے جو کہا تھا مجھ سے سامنے ...

مزید پڑھیے

عشق کیا شے ہے دوست کیا کہئے

عشق کیا شے ہے دوست کیا کہئے خوبصورت سی اک خطا کہئے سب کے اپنے معاملے ہیں جناب کس کو اچھا کسے برا کہئے نور اس کا ظہور اس کا ہے دیکھیے اور مرحبا کہئے ساری دنیا لگا چکی تہمت آپ بھی مجھ کو بے وفا کہئے ہر مرض کا علاج ممکن ہے درد دل کی ہے کیا دوا کہئے نام جب لکھ دی زندگی میرے کس لئے ...

مزید پڑھیے

مجھے بھی نیم کے جیسا نہ کر دے

مجھے بھی نیم کے جیسا نہ کر دے کہ تلخی زیست کی کڑوا نہ کر دے یہ تیری آرزو ایسا نہ کر دے زمانے میں مجھے رسوا نہ کر دے محبت زندگی سے وہ بھی بے حد کہیں یہ زندگی دھوکا نہ کر دے تو اس سے قبل ہو آنکھوں سے اوجھل مرا مالک مجھے اندھا نہ کر دے عطا کر دے الٰہی پھر سے بچپن مجھے ہر فکر سے ...

مزید پڑھیے

مانگنے سے تو حکومت نہیں ملنے والی

مانگنے سے تو حکومت نہیں ملنے والی بھیک میں ہم کو یہ عظمت نہیں ملنے والی گر یہی حال زمانے میں تعصب کا رہا آگے نسلوں میں محبت نہیں ملنے والی دوسروں کا بھی ادب کرنا ضروری ہے بہت تلخ لہجے سے تو عزت نہیں ملنے والی موت کا وقت معین ہے ازل سے اس میں کسی لمحے کی بھی مہلت نہیں ملنے ...

مزید پڑھیے

ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں

ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب اہل ...

مزید پڑھیے

درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا

درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا جو دیکھا دور تک ملبہ پڑا تھا مسلسل دھول سے جیسے اٹا تھا ہمیں تو آسماں صحرا لگا تھا نہ اس شب چاند ابھرا اور نہ تارے ہمارا ہجر تو تنہا کٹا تھا جو تم بچھڑے تو خود کو چھوڑ آئے ہماری دسترس میں اور کیا تھا نہ اتری چاندنی نہ روئی شبنم عجب اک دھند کا موسم بنا ...

مزید پڑھیے

اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے

اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے پتھر کے اس دیار سے شانے نکل پڑے اک سنگ سے جو بڑھنے لگیں آشنائیاں دانستہ ہم بھی ٹھوکریں کھانے نکل پڑے گھر واپسی کا وقت تھا ڈھلنے لگی تھی شام بکھرے جہاں جہاں تھے اٹھانے نکل پڑے پھر لے کے آیا ہے انہیں گلیوں میں اضطراب ہم پھر وہیں پہ دھول اڑانے نکل ...

مزید پڑھیے

یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے

یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے کہ ساتھ اس کی نگہبانی نہیں ہے اسے چاہا تھا جس شدت سے میں نے وہ بچھڑا ہے تو حیرانی نہیں ہے سمندر ہے مری پلکوں کے نیچے وہ کہتا ہے یہاں پانی نہیں ہے مری وحشت سے ہے آباد صحرا مری راہوں میں ویرانی نہیں ہے قیامت آئی تھی چہرہ بدل کر مکمل تو نے پہچانی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 544 سے 6203