گھر میرا تھا اور اس میں بسر تم نے کیا ہے
گھر میرا تھا اور اس میں بسر تم نے کیا ہے
آنگن کو میرے راہ گزر تم نے کیا ہے
ذروں کو میرے شمس و قمر تم نے کیا ہے
آفاق کو تا حد نظر تم نے کیا ہے
اب اس کی گھنی چھاؤں ہی سرمایۂ جاں ہے
احساس کے پودے کو شجر تم نے کیا ہے
دیوار پہ اک جلتا دیا رکھا تھا میں نے
رخ ساری ہواؤں کا ادھر تم نے کیا ہے
ہر لمحہ مجھے ملتی ہے سانسوں سے گواہی
میرے لیے خوشبو کا سفر تم نے کیا ہے