وہ چہرہ جو میری چاہت رہا ہے

وہ چہرہ جو میری چاہت رہا ہے
مگر ایسا کہیں دیکھا سنا ہے


خود اپنی ذات کا میری انا سے
بڑی مشکل سے سمجھوتہ ہوا ہے


اجالے سب سمیٹے جا چکے ہیں
مرے رستے میں اک ٹوٹا دیا ہے


مرا اپنا اثاثہ کچھ نہیں ہے
مرا تو نام بھی رکھا ہوا ہے


میں کن لمحوں کے پیچھے بھاگتی ہوں
پرندے کا مجھے سایہ ملا ہے


وہیں سے جھانکتا ہے عکس میرا
جہاں سے آئنہ ٹوٹا ہوا ہے


ہنسی کے ساتھ آنسو کا ٹپکنا
کوئی ٹانکا کہیں سے کھل گیا ہے


مجھے تسنیمؔ وہ لگتا ہے ایسے
لباسوں کی طرح پہنا ہوا ہے