چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے
چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے
اب شہر میں سورج بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے
میں خوش ہوں بہت کانچ کی پوشاک پہن کر
پتھر سے جو ٹکرائی ہے وہ میری صدا ہے
وہ شخص جو آئینہ تھا چہروں کے جہاں میں
بکھرا تو کسی سے بھی سمیٹا نہ گیا ہے
گھر اس کا ہے دروازہ بھی دستک بھی اسی کی
آواز کے رشتوں میں وہی شہر دعا ہے
ہاتھ اس کا ہر اک سوچ مری تھام رہا ہے
وہ شخص مری ذات میں مجھ سے بھی بڑا ہے
اک ابر کا ٹکڑا جو تری یاد کا گزرا
احساس کا سوکھا ہوا جنگل بھی ہرا ہے
شیشے کا کوئی گھر تھا نہ دل کی کوئی آواز
پھر کیوں یہ سر راہ چھناکا سا ہوا ہے