دل سے تیری یاد کا اک پل جدا ہوتا نہیں

دل سے تیری یاد کا اک پل جدا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں


میں ہی میں ہوتی ہوں اپنے عالم امکان میں
تو ہی تو ہوتا ہے کوئی دوسرا ہوتا نہیں


صبر ہی کرنا ہے اس کا شہر ہے اور شہر میں
واقعہ ہوتا نہیں یا حادثہ ہوتا نہیں


غیر تو پھر غیر ہے کیا وقت کو الزام دوں
جب مرا ہوتے ہوئے بھی دل مرا ہوتا نہیں


ضبط کس کا صبر کس کا کس کا دل کس کی وفا
عشق میں کوئی کسی کا آشنا ہوتا نہیں


جس کی خاطر دشمنی تسنیمؔ دنیا سے ہوئی
دیکھیے وہ بھی مرا ہوتا ہے یا ہوتا نہیں