رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا

رہے خرام سلامت ندی کے دھاروں کا
نکل نہ جائے کہیں دم مگر کناروں کا


تھا اضطراب و تمنائے دید گل کا کرم
بہت کٹھن تھا سفر ورنہ خارزاروں کا


ستا رہی ہے دل شب کو کل کے چاند کی یاد
اڑا اڑا سا ہے کچھ آج رنگ تاروں کا


جو خوش ہے ایک تو اس کی وفا کے چرچے ہیں
دکھائے دل وہ جہاں میں بھلے ہزاروں کا


یہی ہے لطف تو پھر جور کس کو کہتے ہیں
نہ سمجھا کوئی بھی مطلب ترے اشاروں کا


تن برہنہ ہو جیسے لباس کا محتاج
ہوا ہے شعر بھی مرہون استعاروں کا


اسے تو حسن کی حرمت کا پاس تھا اتنا
کہ کائنات معما ہے پردہ داروں کا


ہو ابتلا سے جہاں عاشقی کی پیمائش
تو کیا عجب ہو وہاں جوش بے قراروں کا