جان اسے چلانے میں اہرمن کی کھپتی ہے

جان اسے چلانے میں اہرمن کی کھپتی ہے
رات دن مگر دنیا نام تیرا جپتی ہے


روشنی کے جلوے ہیں پھلتے پھولتے جنگل
جن کی چھتر چھایا میں تیرگی پنپتی ہے


گونج سی یہاں شب بھر تم جو روز سنتے ہو
دشت کی پناہوں میں خامشی تڑپتی ہے


کیا کہا کہو تو پھر دھیان حسن سیرت کا
اے میاں مری مانو چھاپ لو جو چھپتی ہے


ناگہاں مگر اس میں پھول کیوں نہیں کھلتے
ریگ زار کی مانند خاک دل بھی تپتی ہے


حسن اتر کے آتا ہے یوں امنگؔ آنکھوں میں
جھیل جس طرح گہری روشنی ہڑپتی ہے