قومی زبان

بنا کے وہم و گماں کی دنیا حقیقتوں کے سراب دیکھوں

بنا کے وہم و گماں کی دنیا حقیقتوں کے سراب دیکھوں میں اپنے ہی آئینے میں خود کو جہاں بھی دیکھوں خراب دیکھوں یہ کس کے سائے نے رفتہ رفتہ اک عکس موہوم کر دیا ہے عدم اگر ہے وجود میرا تو روز و شب کیوں عذاب دیکھوں بدل بدل کے ہر ایک پہلو فسانہ کیا کیا بنا رہا ہے بہت سے کردار آئے ہوں گے مگر ...

مزید پڑھیے

کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا

کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا اسے کس کس طرح سے در پئے آزار ہونا تھا سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا صدائے الاماں دیوار گریہ سے پلٹ آئی مقدر کوفہ و کابل کا جو مسمار ہونا تھا مقدر کے نوشتے میں جو لکھا ہے وہی ہوگا یہ مت ...

مزید پڑھیے

جب انسان کو اپنا کچھ ادراک ہوا

جب انسان کو اپنا کچھ ادراک ہوا سارا عالم اس کی نظر میں خاک ہوا اس محفل میں میں بھی کیا بیباک ہوا عیب و ہنر کا سارا پردہ چاک ہوا اس کی گلی سے شاید ہو کر آیا ہے باد صبا کا جھونکا جو سفاک ہوا ضبط محبت کی پابندی ختم ہوئی شوق بدن کا سارا قصہ پاک ہوا اس بستی سے اپنا رشتۂ جاں منظرؔ آتے ...

مزید پڑھیے

جوکھم

جب کبھی میں اپنی کوئی پرانی لکھی نظم اٹھاؤں تو وہ کچھ بدلی بدلی سی لگتی ہے اسے جتنی بار پڑھو اتنی ہی بار میری رائے اس کے بارے میں بدلنے لگتی ہے کہ کبھی نظم جی کو اچھی لگتی ہے تو کبھی اکھرتی ہے کبھی چہرے پہ مسکان تو کبھی ماتھے پہ شکن آنے لگتی ہے اس الجھن کا کیا کوئی حل ہے کیا میں ...

مزید پڑھیے

پیسو سموکر

دھوئیں کے قفس میں قید پیسو سموکر کھل کر سانس لینے کو ترستا تڑپتا گلے سے ہوا مانو اترتی نہیں ہوا میں کیلیں لگیں ہے جیسے جو کھانسنے پر بھی گلے سے گرتی نہیں دھوئیں کے قفس میں قید پیسو سموکر ہوا اس قدر ہے روکھی کہ اندر سے گلا چھلنے لگا ہے اندر ایک زخم ہونے لگا ہے بہت بیمار ہونے لگا ...

مزید پڑھیے

چاند سے دوڑ

بچپن میں جب میں شام کو گاڑی کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھتا تو مسکراتے دودھیا سفید چاند کو اپنے بغل میں پاتا مانو مجھ سے دوڑ لگا رہا ہے کوئی بھی سڑک کوئی بھی موڑ کسی بھی سمت کسی بھی اور میں جہاں بھی جاؤں مجھ سے قدم سے قدم ملا رہا ہے پر جانے کیوں یہ مجھ سے جیتنے کے لیے نہیں دوڑتا کہ میں ...

مزید پڑھیے

شکار

ہتھیار ہاتھ میں لئے سانس روکے آنکھیں کھولے شکار کی تاک میں بیٹھا ہوں میں چوک کی کوئی گنجائش ہی نہیں نہ ذرا سی بھی نہیں کہ ہلکی سے ہلکی حرکت پر آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے لیے مشہور ہے میرا شکار بجلی سا تیز لومڑی سا چالاک و چتر ہے مرا شکار بڑا ہی جوکھم بھرا کھیل ہے شکار آنکھ اور ...

مزید پڑھیے

لنکا

دن چڑھتے ہی جہاں بدھم شرنم گچھامی گونج اٹھتا ہے جہاں ہنومان مندر میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں جہاں لوگ مسجد گرجے سے اوپر والے کو یاد کر دن کے کام پہ نکل پڑتے ہیں میں نے وہ لنکا دیکھی ہے میں نے سونے کی لنکا دیکھی ہے میں نے راون راکشس کی لنکا دیکھی ہے لیکن میں نے لنکا میں یہ بھی ...

مزید پڑھیے

وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے

وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے بچھڑنے والا شریک سفر تو اب بھی ہے زباں بریدہ سہی میں خزاں رسیدہ سہی ہرا بھرا مرا زخم ہنر تو اب بھی ہے ہماری در بہ دری پر نہ جائیے کہ ہمیں شعور سایۂ دیوار و در تو اب بھی ہے کہانیاں ہیں اگر معتبر تو پھر اک شخص کہانیوں کی طرح معتبر تو اب بھی ...

مزید پڑھیے

آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے

آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے وہ گرد رہ ترک مراسم سے اٹھی ہے صدیوں کے تسلسل میں کہیں گردش دوراں پہلے بھی کہیں تجھ سے ملاقات ہوئی ہے اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے خود اپنے لہو سے تری تاریخ لکھی ہے اس کج کلۂ عشق کو اے مشق ستم دیکھ سر تن پہ نہیں پھر بھی وہی سرو قدی ہے کس ...

مزید پڑھیے
صفحہ 488 سے 6203