وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے
وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریک سفر تو اب بھی ہے
زباں بریدہ سہی میں خزاں رسیدہ سہی
ہرا بھرا مرا زخم ہنر تو اب بھی ہے
ہماری در بہ دری پر نہ جائیے کہ ہمیں
شعور سایۂ دیوار و در تو اب بھی ہے
کہانیاں ہیں اگر معتبر تو پھر اک شخص
کہانیوں کی طرح معتبر تو اب بھی ہے
مگر یہ کون بدلتی ہوئی رتوں سے کہے
شجر میں سایہ نہیں ہے شجر تو اب بھی ہے