جوکھم
جب کبھی میں اپنی کوئی
پرانی لکھی نظم اٹھاؤں
تو وہ کچھ بدلی بدلی سی لگتی ہے
اسے جتنی بار پڑھو اتنی ہی بار
میری رائے اس کے بارے میں بدلنے لگتی ہے
کہ کبھی نظم جی کو اچھی لگتی ہے
تو کبھی اکھرتی ہے
کبھی چہرے پہ مسکان تو کبھی ماتھے پہ شکن
آنے لگتی ہے
اس الجھن کا کیا کوئی حل ہے
کیا میں اپنے قلم پہ بھروسہ کر
اپنی چنتاؤں کو نظر انداز کر
اپنی نظمیں دنیا کے حوالے کر سکتا ہوں
کیا میں یہ جوکھم لے سکتا ہوں
نتیجہ کچھ بھی ہو
موتی کی تلاش میں سمندر کی گہرائیوں میں
غوطہ خور جانے سے خود کو روک نہیں سکتا
بارش ہو نہ ہو فصل اگے نہ اگے
کسان بوائی کرنا حل چلانا چھوڑ نہیں سکتا
اگر غور کیا جائے
تو جوکھم وہ مول لے رہا ہے
جو میری نظمیں پڑھنے والا ہے