قسمت میں نیک فال نہ کل تھا نہ آج ہے

قسمت میں نیک فال نہ کل تھا نہ آج ہے
کوئی شریک حال نہ کل تھا نہ آج ہے


میں بھی بدل سکا نہ مزاج اپنا آج تک
اس میں بھی اعتدال نہ کل تھا نہ آج ہے


اس کی جبیں پہ اس لیے پڑتی نہیں شکن
دل مال یرغمال نہ کل تھا نہ آج ہے


جس سے مری حیات کی بڑھ جائے تشنگی
نظروں میں ایسا تال نہ کل تھا نہ آج ہے


میرا حریف ہو کے بھلا چاہے وہ مرا
وہ شخص با کمال نہ کل تھا نہ آج ہے