پرانے مندر میں شام

اب تو وہاں
نشان ہے
جہاں
کبھی دیوتا کہ مورتی رہی ہوگی
شکستہ شہتیر میں
پھنسا
بچا
زنجیر کا حلقہ
جس میں
شاید کبھی گھنٹی لٹکتی ہو
صحن میں راکھ ہے
کسی نے الاؤ جلایا ہوگا
روشنی اور گرمی کے لئے
درکتی دہلیز پر
ریوڑ سے بچھڑی
بھیڑ
پرانے سجدے چنتی ہے
پیلے پائے دانوں پر
نقوش پا ابھرتے ہیں