شاعری

بے خبر

نومبر کی زرد رو دھوپ کھڑکی کے روزن سے نکل کر ہر سو پھیل گئی ہے ویران اجاڑ کمرے میں خشک موٹی کتابیں ہیں نیم شب کی جلی ادھ جلی سگریٹیں بوڑھے شاعر کا پرانا چشمہ جھریوں بھرے ہاتھوں کی لرزش میں انوکھے الفاظ رنگ خوشبو فلک پیمائی کے نئے انداز کرم خوردہ میز کے عقب میں بوڑھا شاعر پار کر ...

مزید پڑھیے

نہ مینار محلوں کی شوکت بچے گی

نہ مینار محلوں کی شوکت بچے گی بچے گی تو بس اک محبت بچے گی نا ہی حکمراں کی حکومت بچے گی محبت بچے گی محبت بچے گی چلے جاؤ گے جب مجھے چھوڑ کر تم عبادت سمٹ کر شکایت بچے گی کنویں میں چلو کود جاتے ہیں دونوں تبھی اس زمانہ کی راحت بچے گی گھٹا دیں اگر اس جہاں سے سخنور جہاں میں تو پھر صرف ...

مزید پڑھیے

باندھ لیے ہیں تجھ سے ہر پل کے دھاگے

باندھ لیے ہیں تجھ سے ہر پل کے دھاگے آج کے بندھن اور آتے کل کے دھاگے روشن ہے پر چاند سا ماتھا تیرا اور گیسو تیرے مانو مخمل کے دھاگے سچ ہے کہ میں الجھن کی ترپائی ہوں سچ ہے بس تو ہے میرے حل کے دھاگے قابل تھے میری منت کے وہ فیتے کامل ہیں یہ تیرے آنچل کے دھاگے یار کسی پر نئی ڈالیں گے ...

مزید پڑھیے

جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے

جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے ایسا لگتا ہے کہ سینے میں چھری لگتی ہے رات بھاری تھی تو تھے اس کے ستم سے بے زار صبح آئی ہے تو وہ اور بری لگتی ہے وہ ہو آرائش افکار کہ زیبائش فن آج دونوں کی روش خانہ پری لگتی ہے لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ...

مزید پڑھیے

غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا

غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا لاکھ مجبور ہوئے ان کو پکارا نہ گیا کیا لہو روئے تو آیا ہے بہاروں کا سلام صرف خوابوں سے حقائق کو سنوارا نہ گیا معرکہ عشق کا سر دے کے بھی سر ہو نہ سکا کون راہی تھا جو اس راہ میں مارا نہ گیا وہ بھی وقت آتا ہے ساقی بھی بدل جاتے ہیں مے کدے پر کبھی مستوں ...

مزید پڑھیے

شگفتگیٔ دل ویراں میں آج آ ہی گئی

شگفتگیٔ دل ویراں میں آج آ ہی گئی گھٹا چمن پہ بہاروں کو لے کے چھا ہی گئی حیات تازہ کے خطروں سے دل دھڑکتا تھا ہوا چلی تو کلی پھر بھی مسکرا ہی گئی نقاب میں بھی وہ جلوے نہ قید ہو پائے کرن دلوں کے اندھیرے کو جگمگا ہی گئی تغافل ایک بھرم تھا غرور جاناں کا مری نگاہ محبت کا رمز پا ہی ...

مزید پڑھیے

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی یاں تشنہ کامیاں تو مقدر ہیں زیست میں ملتی ہے حوصلے کے برابر کبھی کبھی آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی ...

مزید پڑھیے

ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا

ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا پیڑ اس کا نہیں آندھی سے اکھڑنے والا راہ چلتے ہوئے انگلی بھی کسی کی نہ پکڑ بھیڑ میں ہوتا ہے ہر شخص بچھڑنے والا اک ہمکتے ہوئے بچے کی طرح ضد نہ کر خوش نما جسم کھلونا ہے بگڑنے والا ختم محلوں کی روا داری کا دستور ہوا اب یہاں کون ہے دیوار میں گڑھنے ...

مزید پڑھیے

جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ

جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ لوٹ کر دور جا رہا تھا وہ صرف رشتے کی بات پر یارو عمر اپنی چھپا رہا تھا وہ تتلیاں جتنی سامنے آئیں رنگ سب کے چرا رہا تھا وہ دل کسی سے نہیں ملا اس کا ہاتھ سب سے ملا رہا تھا وہ زخم خوردہ صداؤں کو عاجزؔ خامشی سے اٹھا رہا تھا وہ

مزید پڑھیے

زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا

زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا اگنے دے نیا سورج پھر چاہے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5840 سے 5858