زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا

زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا
بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا


احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا
اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا


شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے
جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا


ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا
اگنے دے نیا سورج پھر چاہے جہاں لے جا


جلتی ہوئی راتوں کا بجھتا ہوا منظر ہوں
گھر آ کے کبھی عاجزؔ مجھ سے یہ سماں لے جا