جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ

جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ
لوٹ کر دور جا رہا تھا وہ


صرف رشتے کی بات پر یارو
عمر اپنی چھپا رہا تھا وہ


تتلیاں جتنی سامنے آئیں
رنگ سب کے چرا رہا تھا وہ


دل کسی سے نہیں ملا اس کا
ہاتھ سب سے ملا رہا تھا وہ


زخم خوردہ صداؤں کو عاجزؔ
خامشی سے اٹھا رہا تھا وہ