سورج-۱
پانی جگ مگ کرتا جائے سورج اس میں ڈوبا جائے بڑی سی یہ سونے کی تھالی کیا معلوم کہاں کھو جائے مغرب میں جو بستے ہوں گے کتنے وہ خوش قسمت ہوں گے ہاتھ بڑھا کر بڑے مزے سے سورج کو چھو لیتے ہوں گے
پانی جگ مگ کرتا جائے سورج اس میں ڈوبا جائے بڑی سی یہ سونے کی تھالی کیا معلوم کہاں کھو جائے مغرب میں جو بستے ہوں گے کتنے وہ خوش قسمت ہوں گے ہاتھ بڑھا کر بڑے مزے سے سورج کو چھو لیتے ہوں گے
اے خدا کیسا سماں آیا ہے شہر میں ہر سو دھواں چھایا ہے لٹ گئی خلق خدا کی حسرت عہد نو ایسا زیاں لایا ہے ہجر کے دشت میں یکسر میں نے غم کے دریا کو رواں پایا ہے صرف مجھ کو نہیں دولت کی طلب سب کو درکار یہاں مایا ہے بڑی مشکل سے جہاں کو شوقیؔ میرا انداز بیاں بھایا ہے
اے خدا حسرت و جذبات کے مارے ہوئے لوگ اب کہاں جائیں یہ حالات کے مارے ہوئے لوگ تیری دنیا کی کہانی بھی عجب ہے مولا در بدر رہتے ہیں حق بات کے مارے ہوئے لوگ صبح نو کے لئے زنبیل طلب لائے ہیں دشت ویراں میں سیہ رات کے مارے ہوئے لوگ تو بھی آرام ذرا کر لے غبار منزل ابھی سوئے ہیں مسافات کے ...
تیری امید کے اسباب نظر آتے نہیں کیوں مجھے کوئی حسیں خواب نظر آتے نہیں اتنا بھٹکا ہوں اذیت کے بیاباں میں کہ اب کوئی بھی لمحۂ نایاب نظر آتے نہیں کس قدر دھندلے ہیں مظلوم کی آہوں سے فلک مہر و انجم ہوں کہ مہتاب نظر آتے نہیں دست بردار نہیں رسم تعلق سے میں پھر بھلا کیوں مجھے احباب ...
کون سکھ چین سے ہے کس کی پذیرائی ہے تیری دنیا میں ہر اک موڑ پہ رسوائی ہے جھیل سی آنکھیں تری اور گلابی ترے ہونٹ میری چاہت کے ہی صدقے میں یہ رعنائی ہے میں جو چپ چاپ سا بیٹھا ہوں تری محفل میں یہ مرا شوق نہیں ضربت تنہائی ہے گھر میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جاتے ہیں بیمار غریب اب شفا خانے میں ...
تنہائی کی آغوش میں تھا صبح سے پہلے ملتی رہی الفت کی سزا صبح سے پہلے شاید مرے لفظوں پہ ترس آئے اسے اب روتے ہوئے مانگی ہے دعا صبح سے پہلے سایہ بھی مرا کھو گیا تاریکئ شب میں ظلمت کا اثر ایسا رہا صبح سے پہلے جب رات میں سو جاتی ہے یہ ساری خدائی دیتا ہے مجھے کون صدا صبح سے پہلے شاید ...
میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے آئنہ مجھ میں ڈھونڈھتا کیا ہے خود سے بیتاب ہوں نکلنے کو کوئی بتلائے راستہ کیا ہے میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے میں ہوں یکجا تو پھر مرے اندر ایک مدت سے ٹوٹتا کیا ہے خود ہی تنہائیوں میں چلاؤں خود ہی سوچوں یہ شور سا کیا ...
خود سے میں بے یقیں ہوا ہی نہیں آسماں تھا زمیں ہوا ہی نہیں عشق کہتے ہیں سب جسے ہم سے وہ گناہ حسیں ہوا ہی نہیں وصل بھی اس کا اس کے جیسا تھا جو گماں سے یقیں ہوا ہی نہیں خانۂ دل سرا کی صورت ہے کوئی اس میں مکیں ہوا ہی نہیں لاکھ چاہا مگر سخن میرا قابل آفریں ہوا ہی نہیں میں بھی خود کو ...
بوسیدہ جسم و جاں کی قبائیں لیے ہوئے صحرا میں پھر رہا ہوں بلائیں لیے ہوئے دل وہ عجیب شہر کہ جس کی فصیل پر نازل ہوا ہے عشق بلائیں لیے ہوئے میں وحشت جنوں ہوں مری مشت خاک کو پھرتی ہیں در بہ در یہ ہوائیں لیے ہوئے دیکھا بغور اپنی خودی کا جو آئنہ ابھرے ہزار چہرہ خطائیں لیے ہوئے اک ...
جس کی آواز کانوں میں صبح صبح چڑیوں کی طرح چہکتی تھی جس کی موجودگی سے فضاؤں میں خوشبو سی مہکتی تھی وہ میری پہلی محبت تھی جس کی آنکھیں دیکھ متأثر ہو جاتے تھے ہرن نقاب سے جس کا چہرہ ایسے جھلکتا تھا جیسے سورج کی پہلی کرن جس کا مسکرانا تھا کہ جیسے وادیوں میں سحر کا آنا کسی پھول کی طرح ...