ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا

ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا
پیڑ اس کا نہیں آندھی سے اکھڑنے والا


راہ چلتے ہوئے انگلی بھی کسی کی نہ پکڑ
بھیڑ میں ہوتا ہے ہر شخص بچھڑنے والا


اک ہمکتے ہوئے بچے کی طرح ضد نہ کر
خوش نما جسم کھلونا ہے بگڑنے والا


ختم محلوں کی روا داری کا دستور ہوا
اب یہاں کون ہے دیوار میں گڑھنے والا


زندگی شہر بسانے میں ہے مصروف عاجزؔ
گاؤں طوفان کی زد میں ہے اجڑنے والا