شاعری

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کا ہمارے شہر میں کردار قتل ہوتے ہیں فضا میں ہم ہی بناتے ہیں آگ کے منظر سمندروں میں ہمیں کشتیاں ڈبوتے ہیں پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں میں اس ...

مزید پڑھیے

میسر ہو جو لمحہ دیکھنے کو

میسر ہو جو لمحہ دیکھنے کو کتابوں میں ہے کیا کیا دیکھنے کو ہزاروں قد آدم آئنے ہیں مگر ترسوگے چہرہ دیکھنے کو ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں تم آنا شہر میرا دیکھنے کو پھر اس کے بعد تھا خاموش پانی کہ لوگ آئے تھے دریا دیکھنے کو ہوا سے ہی کھلتا تھا اکثر مجھے بھی اک دریچہ دیکھنے ...

مزید پڑھیے

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا بچھڑے ہوؤں کی یاد تو آئے گی جیتے جی موسم رفاقتوں کا پلٹ کر نہ آئے گا تخلیق اور شکست کا دیکھیں گے لوگ فن دریا حباب سطح پہ جب تک بنائے گا ہر ہر قدم پہ آئنہ بردار ہے نظر بے چہرگی کو کوئی کہاں تک چھپائے گا میری صدا کا ...

مزید پڑھیے

اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے

اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے اب ہر اک شخص ہے اعزاز طلب شہر میں چند مکاں تھے پہلے آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے جیسے وہ شاہ جہاں تھے پہلے ٹوٹ ...

مزید پڑھیے

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے سنبھل کے چلنے کا سارا غرور ٹوٹ گیا اک ایسی بات کہی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ابھارتی ہوئی جذبات کو یہ تصویریں یہ انقلاب ہمارے گھروں میں آتے ہوئے اسی لیے کہ کہیں ان کا قد نہ گھٹ جائے سلام کو بھی وہ ڈرتے ہیں ہاتھ ...

مزید پڑھیے

ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں

ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں نئے زمانے ترے ساتھ چل رہا ہوں میں چراغ آخر شب ہوں مگر ابھی سورج سکون سے تو نکلنا کہ جل رہا ہوں میں یہ چاہتا ہوں کی ہر رخ سے دیکھ لوں دنیا یہ زاویے جو نظر کے بدل رہا ہوں میں نئی ہوائیں ابھی سب گھروں تک آئی نہیں ابھی تو ہاتھ کا پنکھا ہی جھل رہا ...

مزید پڑھیے

یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم

یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم الزام تتلیوں کے پروں پر لگائیں ہم ہوتی ہیں روز روز کہاں ایسی بارشیں آؤ کہ سر سے پاؤں تلک بھیگ جائیں ہم اکتا گیا ہے ساتھ کے ان قہقہوں سے دل کچھ روز کو بچھڑ کے اب آنسو بہائیں ہم کب تک فضول لوگوں پر ہم تجربے کریں کاغذ کے یہ جہاز کہاں تک ...

مزید پڑھیے

وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا

وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا ابھی گزر جو گیا اک عظیم لمحہ تھا سنا ہے میں نے یہاں سرخ گھاس آ گئی تھی وہ بادشاہ یہیں اپنی جنگ ہارا تھا ہماری رات سے بہتر تھی اگلے وقت کی رات ہر ایک گھر میں دیا صبح تک تو جلتا تھا عزیز مجھ کو بھی تھے نقش اپنے ماضی کے اسے بھی شوق پرانی عمارتوں کا ...

مزید پڑھیے

اس کو آداب بچھڑنے کے سکھاتا ہوا میں

اس کو آداب بچھڑنے کے سکھاتا ہوا میں جاتے جاتے اسے سینہ سے لگاتا ہوا میں بڑھ گئے مجھ سے بھی کچھ ہاتھ ملانے والے اس سے دیکھا گیا جب ہاتھ ملاتا ہوا میں احتجاجوں کا مرے عشق سے آغاز تو ہو اس کے کوچے میں چلوں شور مچاتا ہوا میں

مزید پڑھیے

نظر کی زد میں سر کوئی نہیں ہے

نظر کی زد میں سر کوئی نہیں ہے فصیل شہر پر کوئی نہیں ہے بہت مخلص ہیں اس کے گاؤں والے پڑھا لکھا مگر کوئی نہیں ہے خبر اک گھر کے جلنے کی ہے لیکن بچا بستی میں گھر کوئی نہیں ہے کہیں جائیں کسی بھی وقت آئیں بڑوں کا دل میں ڈر کوئی نہیں ہے مجھے خود ٹوٹ کر وہ چاہتا ہے مرا اس میں ہنر کوئی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4736 سے 5858