ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں

ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں
نئے زمانے ترے ساتھ چل رہا ہوں میں


چراغ آخر شب ہوں مگر ابھی سورج
سکون سے تو نکلنا کہ جل رہا ہوں میں


یہ چاہتا ہوں کی ہر رخ سے دیکھ لوں دنیا
یہ زاویے جو نظر کے بدل رہا ہوں میں


نئی ہوائیں ابھی سب گھروں تک آئی نہیں
ابھی تو ہاتھ کا پنکھا ہی جھل رہا ہوں میں


مرے نشہ مجھے اب لڑکھڑانے مت دینا
شراب خانے سے باہر نکل رہا ہوں میں


ذرا سا وقت ہے اور دور میری منزل ہے
اسی لئے تو بہت تیز چل رہا ہوں میں