نظر کی زد میں سر کوئی نہیں ہے

نظر کی زد میں سر کوئی نہیں ہے
فصیل شہر پر کوئی نہیں ہے


بہت مخلص ہیں اس کے گاؤں والے
پڑھا لکھا مگر کوئی نہیں ہے


خبر اک گھر کے جلنے کی ہے لیکن
بچا بستی میں گھر کوئی نہیں ہے


کہیں جائیں کسی بھی وقت آئیں
بڑوں کا دل میں ڈر کوئی نہیں ہے


مجھے خود ٹوٹ کر وہ چاہتا ہے
مرا اس میں ہنر کوئی نہیں ہے


ہم اپنے ساتھ جائیں بھی کہاں تک
ہمارا ہم سفر کوئی نہیں ہے


ابھی آندھی پہ اظہرؔ تبصرے ہیں
چراغوں کی خبر کوئی نہیں ہے