وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا

وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا
ابھی گزر جو گیا اک عظیم لمحہ تھا


سنا ہے میں نے یہاں سرخ گھاس آ گئی تھی
وہ بادشاہ یہیں اپنی جنگ ہارا تھا


ہماری رات سے بہتر تھی اگلے وقت کی رات
ہر ایک گھر میں دیا صبح تک تو جلتا تھا


عزیز مجھ کو بھی تھے نقش اپنے ماضی کے
اسے بھی شوق پرانی عمارتوں کا تھا


اب اپنے سر کا تحفظ بھی آپ خود کیجے
فضا میں آپ نے پتھر بھی خود اچھالا تھا


گیا تو اپنی اداسی بھی دے گیا مجھ کو
تمام دن جو مرے ساتھ ہنستا رہتا تھا


اب اس سے ایک بڑا نام جڑ گیا اظہرؔ
جو شاہ کار مری فکر نے بنایا تھا