شاعری

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں کیا خریدوں گا اس دکان سے میں ہو گیا اپنی ہی انا سے ہلاک دب گیا اپنی ہی چٹان سے میں ایک رنگین سی بغاوت پر کٹ گیا سارے خاندان سے میں روز باتوں کے تیر چھوڑتا ہوں اپنے اجداد کی کمان سے میں مانگتا ہوں کبھی لرز کے دعا کبھی لڑتا ہوں آسمان سے میں اے مرے ...

مزید پڑھیے

غموں سے یوں وہ فرار اختیار کرتا تھا

غموں سے یوں وہ فرار اختیار کرتا تھا فضا میں اڑتے پرندے شمار کرتا تھا بیان کرتا تھا دریا کے پار کے قصے یہ اور بات وہ دریا نہ پار کرتا تھا بچھڑ کے ایک ہی بستی میں دونوں زندہ ہیں میں اس سے عشق تو وہ مجھ سے پیار کرتا تھا یوں ہی تھا شہر کی شخصیتوں کو رنج اس سے کہ وہ ضدیں بھی بڑی پر ...

مزید پڑھیے

بنائے ذہن پرندوں کی یہ قطار مرا

بنائے ذہن پرندوں کی یہ قطار مرا اسی نظارے سے کچھ کم ہو انتشار مرا جو میں بھی آگ میں ہجرت کا تجربہ کرتا مہاجروں ہی میں ہوتا وہاں شمار مرا پھر اپنی آنکھیں سجائے ہوئے میں گھر آیا سفر اک اور رہا اب کے خوش گوار مرا تمام عمر تو خوابوں میں کٹ نہیں سکتی بہت دنوں تو کیا اس نے انتظار ...

مزید پڑھیے

میں سمندر تھا مجھے چین سے رہنے نہ دیا

میں سمندر تھا مجھے چین سے رہنے نہ دیا خامشی سے کبھی دریاؤں نے بہنے نہ دیا اپنے بچپن میں جسے سن کے میں سو جاتا تھا میرے بچوں نے وہ قصہ مجھے کہنے نہ دیا کچھ طبیعت میں تھی آوارہ مزاجی شامل کچھ بزرگوں نے بھی گھر میں مجھے رہنے نہ دیا سربلندی نے مری شہر شکستہ میں کبھی کسی دیوار کو سر ...

مزید پڑھیے

اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے

اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے ان کی سہیلیوں کے بھی آنچل بھگو گئے چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات اے رات اب تو گھر کے در و بام سو ...

مزید پڑھیے

خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی

خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی کیا حادثہ ہوا ہے بتاتا نہیں کوئی گڑیاں جوان کیا ہوئیں میرے پڑوس کی آنچل میں جگنوؤں کو چھپاتا نہیں کوئی جب سے بتا دیا ہے نجومی نے میرا نام اپنی ہتھیلیوں کو دکھاتا نہیں کوئی کچھ اتنی تیز دھوپ نئے موسموں کی ہے بیتی ہوئی رتوں کو بھلاتا نہیں ...

مزید پڑھیے

ہر آنکھ میں مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے

ہر آنکھ میں مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے اور آپ کی بستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے ہر شے سے کنارہ بھی اور انجمن آرا بھی کیا آپ کی ہستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے بت خانے میں دن کاٹا میخانے میں شب گزری نشہ ہے نہ مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے یہ دور صنم پرور ہر شخص یہاں آذر صحرا ہے نہ بستی ...

مزید پڑھیے

اداس اداس طبیعت جو تھی بہلنے لگی

اداس اداس طبیعت جو تھی بہلنے لگی ابھی میں رو ہی رہا تھا کہ رت بدلنے لگی پڑوس والو! دریچوں کو مت کھلا چھوڑو تمہارے گھر سے بہت روشنی نکلنے لگی ذرا تھمے تھے کہ پھر ہو گئے رواں آنسو جو رک گئی تھی وہ غم کی برات چلنے لگی بھلا ہو شہر کے لوگوں کی خوش لباسی کا کہ بے کسی بھی مرا پیرہن ...

مزید پڑھیے

حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا

حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا کہانیوں ہی میں لے سانس شاہزادہ کیا یہ رنگ زار ہے اپنا پروں پہ تتلی کے دھنک ہو خود میں تو پھولوں سے استفادہ کیا محبتوں میں یہ رسوائیاں تو ہوتی ہیں شرافتیں تری کیا میرا خانوادہ کیا اگر وہ پھینک دے کشکول اپنے ورثے کا تو اس جہاں میں کرے بھی فقیر ...

مزید پڑھیے

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے نہ جانے شہر میں کس کس سے جھوٹ بولوں گا میں گھر کے پھولوں کو شاداب دیکھنے کے لیے اسی لیے میں کسی اور کا نہ ہو جاؤں مجھے وہ دے گیا اک خواب دیکھنے کے لیے کسی نظر میں تو رہ جائے آخری منظر کوئی تو ہو مجھے غرقاب ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4737 سے 5858