زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں

زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں
ہوا کا عکس چلو ریت پر ابھارتے ہیں


خود اپنے ہونے کا انکار کر چکے ہیں ہم
ہماری زندگی اب دوسرے گزارتے ہیں


تمہاری جیت کا تم کو یقین آ جائے
سو ہم تمہارے لیے بار بار ہارتے ہیں


تلاش ہے ہمیں کچھ گمشدہ بہاروں کی
گزر چکے ہیں جو موسم انہیں پکارتے ہیں


چمک رہے ہیں مرے خیمۂ سخن ہر سو
حریف دیکھیے شب خون کیسے مارتے ہیں


یہ کیسی حیرتیں درپیش ہیں عزیز نبیلؔ
ذرا ٹھہرتے ہیں آسیب جاں اتارتے ہیں