میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں
سرائے درد میں ڈیرا جمائے بیٹھا ہوں


نبیلؔ ریت میں سکے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں


یہ شہر کیا ہے نکلتا نہیں کوئی گھر سے
کئی دنوں سے تماشہ لگائے بیٹھا ہوں


جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں
ہر ایک گھاؤ سے پردہ اٹھائے بیٹھا ہوں


بہت طلب تھی مجھے روشنی میں آنے کی
سو یوں ہوا ہے کہ آنکھیں جلائے بیٹھا ہوں


یہ دیکھو چاند، وہ سورج، وہ اس طرف تارے
اک آسمان زمیں پر سجائے بیٹھا ہوں


نہ جانے کون سا عالم ہے یہ عزیز نبیلؔ
میں ریگزار میں کشتی بنائے بیٹھا ہوں