سنجیو صراف کے لیے ایک نظم
عزم شاہینی لیے اک نوجواں سنجیو ہے
اب مری اردو کا سچا پاسباں سنجیو ہے
ریختہ کے ہو تمہیں استاد غالب آج بھی
ہاں مگر اس باغ کا اب باغباں سنجیو ہے
جس میں لاکھوں ہیں ستارے شاعری و نثر کے
اس نئی اک کہکشاں کا آسماں سنجیو ہے
خوب رو ہے خوب سیرت نرم گفتاری بھی ہے
با ادب تہذیب کا سیل رواں سنجیو ہے
وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
اب تو کتنے قافلوں کا کارواں سنجیو ہے
جس کے دل میں ذہن میں سانسوں میں ہے سارا ادب
ریختہ جیسی حسینہ کی زباں سنجیو ہے
کل وفا اردو سے اس کی سرخ رو ہو جائے گی
داستانوں میں چھپی اک داستاں سنجیو ہے
جس میں شرکت کے لیے بے تاب ہے سارا جہاں
جشن اردو کا بھی میر کارواں سنجیو ہے
بھر رہا ہے ریختہ گاگر میں وہ سارا ادب
یوں لگے اظہرؔ مجھے سارا جہاں سنجیو ہے