ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا
ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن پیدا میزان نشاط و غم میں صدیوں تل کر ہوتا ہے حیات میں توازن پیدا
ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن پیدا میزان نشاط و غم میں صدیوں تل کر ہوتا ہے حیات میں توازن پیدا
رکھشا بندھن کی صبح رس کی پتلی چھائی ہے گھٹا گگن پہ ہلکی ہلکی بجلی کی طرح لچک رہے ہیں لچھے بھائی کے ہے باندھی چمکتی راکھی
جب رات گئے سہاگ کرتی ہے نگاہ دل میں شب ماہ کے اترتی ہے نگاہ رتنار نین سے پھوٹتی ہیں کرنیں یا کاہکشاں کی مانگ بھرتی ہے نگاہ
کھوتے ہیں اگر جان تو کھو لینے دے ایسے میں جو ہو جائے وہ ہو لینے دے ایک عمر پڑی ہیں صبر بھی کر لیں گے اس وقت تو جی بھر کے رو لینے دے
اے معنیٔ کائنات مجھ میں آ جا اے راز صفات و ذات مجھ میں آ جا سوتا سنسار جھلملاتے تارے اب بھیگ چلی ہے رات مجھ میں آ جا
کس پیار سے ہوتی ہے خفا بچے سے کچھ تیوری چڑھائے ہوئے منہ پھیرے ہوئے اس روٹھنے پر پریم کا سنسار نثار کہتی ہے کہ جا تجھ سے نہیں بولیں گے
لچکا لچکا بدن مجسم ہے نسیم مہکا مہکا وہ چہرہ سانسوں کی شمیم دوشیزگئی جمال صبح جنت گاتے ہوئے نرم گام موج تسنیم
کیا تیرے خیال نے بھی چھیڑا ہے ستار سینے میں اڑ رہے ہیں نغموں کے شرار دھیان آتے ہی صاف بجنے لگتے ہیں کان ہے یاد تیری وہ کھنک وہ جھنکار
کرتے نہیں کچھ تو کام کرنا کیا آئے جیتے جی جان سے گزرنا کیا آئے رو رو کے موت مانگنے والوں کو جینا نہیں آ سکا تو مرنا کیا آئے
ماں اور بہن بھی اور چہیتی بیٹی گھر کی رانی بھی اور جیون ساتھی پھر بھی وہ کامنی سراسر دیوی اور سیج پہ بیسوا وہ رس کی پتلی